ذرا سا آدمی ہوں

ذرا سا آدمی ہوں
بلا کا آدمی ہوں


کہا نہ آدمی ہوں
سنا کیا آدمی ہوں


کہاں کا آدمی ہوں
میں دکھتا آدمی ہوں


ترے ہی فضل سے میں
خدایا آدمی ہوں


نہ زندہ ہوں نہ مردہ
ڈرا سا آدمی ہوں


خدا والے تو تم ہو
میں سیدھا آدمی ہوں


نہایت کم ہوں انساں
زیادہ آدمی ہوں


زباں کردار کچھ ہے
میں کیسا آدمی ہوں


یہ دو ہی صورتیں ہیں
خدا یا آدمی ہوں


کبھی مل کر تو دیکھو
میں اچھا آدمی ہوں


مگر باہوش ملنا
میں زندہ آدمی ہوں


سوائے صبر عاصیؔ
کروں کیا آدمی ہوں