پئے جاتا ہوں ساقی کی نظر سے

پئے جاتا ہوں ساقی کی نظر سے
مجھے کیا گردش شام و سحر سے


مناسب ہے غرور حسن لیکن
اتر جائے گا سودا بھی یہ سر سے


یہ کن بیتے دنوں کی یاد آئی
یہ کیسے اشک ٹپکے چشم تر سے


بہت مشاق ہوگا رہزنی میں
کسے تھی یہ توقع راہبر سے


ستم ڈھا کر ہمارے دل پہ اکثر
زمانہ خود گرا اپنی نظر سے


ترے جلوؤں کی تابانی کا عالم
کوئی دیکھے ذرا میری نظر میں


کسی کی مست آنکھوں کے تصدق
یقیں اٹھنے لگا ہے موت پر سے


تمہیں چاہوں تو کس بوتے پہ چاہوں
تمہیں دیکھوں تو دیکھوں کس نظر سے


قدم رقصاں جہاں عالم جنوں نے
کوئی طوفاں اٹھے اس رہ گزر سے


بہت بگڑے ہوئے ہیں ان کے تیور
نظر آتا ہے یہ ان کی نظر سے


بھری محفل میں اظہار محبت
یہ لغزش اور پھر میری نظر سے


اٹھائے موت ہی پھر ان کو عاصیؔ
گرا دیتے ہیں وہ جن کو نظر سے