بھلا چاہے گا کوئی کیا کسی کا

بھلا چاہے گا کوئی کیا کسی کا
ہو دشمن آدمی جب آدمی کا


جفا کاری ہے زندہ آپ ہی سے
جفا کاری ہے شیوہ آپ ہی کا


مرا شیوہ ہے اخلاص و محبت
برا چاہوں گا میں کیوں کر کسی کا


خدا کا شکر ہے اس بے وفا نے
سبب پوچھا ہے میری خامشی کا


ترے دل میں بھی ہو درد محبت
ترا دل کاش ہو جائے کسی کا


دلوں میں حسرت تخریب پنہاں
لبوں پہ ذکر صلح و آشتی کا


یہی معراج ہے خود آگہی کی
نہ توڑو دل زمانے میں کسی کا


وہی دشمن ہوئے ہیں آج عاصیؔ
جو دم بھرتے تھے کل تک دوستی کا