زمیں سورج کی جانب دھیرے دھیرے رخ بدلتی ہے

زمیں سورج کی جانب دھیرے دھیرے رخ بدلتی ہے
اندھیرا خود ہی چھٹتا ہے سحر خود ہی نکلتی ہے


یوں ہی پستے رہو گے وقت کی گردش میں دل والو
خبر ہے انقلاب فکر سے قسمت بدلتی ہے


محبت کرنے والے حوصلہ ہارے حسیں اب تک
انہیں کے دم قدم سے زندگی کروٹ بدلتی ہے


نہیں دیکھا ہے اس کو ہم نے اک مدت سے اے ہمدم
مگر جب بھی خیال آیا ہے اک خواہش مچلتی ہے


زمانے کی رتوں میں کیسے کیسے رنگ اترتے ہیں
کبھی نشہ سا چڑھتا ہے کبھی ممتا مچلتی ہے


مرے خوابوں کے گلشن میں بہاریں رقص کرتی ہیں
مری فردوس گم کردہ مرے ہم راہ چلتی ہے