شکوہ
یہ ترے ہونٹ یہ رخسار یہ خاموش نظر
جیسے مندر میں سجے بیٹھے ہوں پتھر کے صنم
میں تو ہر روز نئے دیپ لئے آتی ہوں
تو نے انجان بنے رہنے کی کھائی ہے قسم
میں ہوں تصویر وفا مجھ سے گریزاں کیوں ہے
عشق کی لوح پہ کیا میں ہوں کوئی حرف غلط
تو نے کتنوں کو نوازا ہے کرم سے اپنے
میں تو رہتی ہوں یہاں صورت اغیار فقط
لوگ دیتے ہیں تجھے گوہر نایاب تو کیا
میں تو دیتی ہوں تجھے قلب و نظر کی سوغات
تجھ کو معلوم ہے تو خوب مجھے جانتا ہے
تیری ہی ذات میں گم رہتی ہے ہر دم مری ذات
میں نے جو پھول بکھیرے ہیں ترے قدموں پر
کتنے تازہ ہیں ذرا ایک نظر دیکھ تو لے
خون روتی ہوئی آنکھیں یہ شکستہ دامن
یوں بھی رنگین ہیں یہ شام و سحر دیکھ تو لے
کتنی مدت سے کھڑی ہوں یہی امید لئے
آج ممکن ہے کہ تو میری محبت مانگے
شاید آنکھیں تری خود میری محبت مانگیں
تیرے دل میں مری الفت کی تمنا جاگے