ہم لوگ

ہم لوگ اندھیروں کے عادی
ہم لوگ سویروں سے خائف
ہم اپنا درد سمجھتے ہیں
لوگوں کے درد سے کب واقف
اس ظلم کی ماری دھرتی میں
دکھ درد کی فصلیں اگتی ہیں
بیمار فضاؤں میں ہر سو
دکھ درد کی نسلیں پلتی ہیں
لیکن اونچے ایوانوں میں
ان رنگ بھرے کاشانوں میں
اک اور ہی خلقت پلتی ہے
جو اپنی ذات میں رہتی ہے
جو خون سبھی کا پیتی ہے
اور پتھر بن کر جیتی ہے