زمیں پہ جن کو حجاب و حیا ضروری ہے
زمیں پہ جن کو حجاب و حیا ضروری ہے
غضب ہے ان کی حجاب و حیا سے دوری ہے
انہیں کو ملتا ہے در سے حضور عالی کے
لبوں پہ جن کے میاں آج جی حضوری ہے
شجر شجر پہ چمن میں خزاں کے ڈیرے ہیں
نہ برگ و گل نہ کہیں نغمۂ طیوری ہے
شکم جو نان و نمک کے لئے ترستے ہیں
نہ ان کی شب ہے سہانی نہ صبح نوری ہے
دعائیں مانگنے والو فتوح و نصرت کی
دعا کے ساتھ عمل بھی بہت ضروری ہے
مرے رفیق سفر تو چلا گیا جب سے
ترے بغیر مری زندگی ادھوری ہے
انوکھی وضع ہے معصومیت بھی ہے رفعتؔ
بتائیں کیا کہ مزاج ان کا لا شعوری ہے