نہیں ہیں دیر و حرم صاحب نظر کے لئے
نہیں ہیں دیر و حرم صاحب نظر کے لئے
مچل رہی ہے جبیں تیرے سنگ در کے لئے
ہمارے پاؤں کے بوسے لئے ستاروں نے
تمہاری راہ میں نکلے جو ہم سفر کے لئے
یہ کیسی انجمن ناز ہے کہ دیوانے
ترس رہے ہیں قرار دل و نظر کے لئے
صبا یہ کوچۂ جاناں میں جا کے کہہ دینا
ذرا سی خاک ملے سرمۂ نظر کے لئے
کسی کا سوز محبت فزوں رہے یا رب
یہ اک چراغ ہی کافی ہے اپنے گھر کے لئے
خوشا نصیب کہ وقف جنوں ہوا رفعتؔ
نہیں ہے سر مرا اے دوست در بدر کے لئے