تری تلاش سے مجھ کو کبھی مفر نہ ملے
تری تلاش سے مجھ کو کبھی مفر نہ ملے
میں چاہتا ہوں مجھے تیرا سنگ در نہ ملے
نفس نفس تو ملے وہ نظر نظر نہ ملے
وہ عمر بھر بھی ملے اور عمر بھر نہ ملے
رلائے جا غم فرقت بہ شان خودداری
وہ حال پوچھنے آئیں تو آنکھ تر نہ ملے
ہے درد عشق ہی دراصل زندگی میری
خدا کرے مجھے غم خوار و چارہ گر نہ ملے
ہمیں تحیر جلوہ سے یہ ہوا معلوم
وہیں وہیں وہ ملے وہ جدھر جدھر نہ ملے
کسی کے زخم انہیں دیکھنے کی تاب نہیں
الٰہی ان کو مری وسعت نظر نہ ملے
مرے یقین نے کی میری رہبری رفعتؔ
جو گمرہان سفر تھے وہ راہبر نہ ملے