زمیں کی بات ہے دل میں مگر امبر نکلتا ہے

زمیں کی بات ہے دل میں مگر امبر نکلتا ہے
سبھی دریا کے دل میں آج کل ساگر نکلتا ہے


زباں پر تیاگ کی باتیں مگر پیسے کے لوبھی ہیں
ہماری جیب سے کاغذ قلم اکثر نکلتا ہے


ہمیشہ دل میں رہتی ہے زمانے بھر کی کڑواہٹ
مگر جب گھر سے چلتا ہے سدا ہنس کر نکلتا ہے


یہاں پر آنکھ کا دیکھا ہمیشہ سچ نہیں ہوتا
جسے پتھر سمجھتے ہیں وہ پیغمبر نکلتا ہے


کوئی غلطی نہ کی ہم نے مگر ہر وقت جانے کیوں
ہمارے واسطے ہر ہاتھ میں پتھر نکلتا ہے