بچھڑتے وقت یہ کیا کر رہا ہے
بچھڑتے وقت یہ کیا کر رہا ہے
میں اس کا ہوں یہ دعویٰ کر رہا ہے
زمانے میں جو دریا کر نہ پایا
وہ سارے کام قطرہ کر رہا ہے
دل نادان تجھ کو کیا کہوں تو
اسی کی پھر تمنا کر رہا ہے
رہا نروستر شب بھر خواہشوں سا
سحر ہوتے ہی پردہ کر رہا ہے
اسی کا نام ہونٹوں تک نہ آیا
جو سب سے میری چرچا کر رہا ہے
مجھے نیچا دکھانا چاہتا تھا
حبیبوں کو اکٹھا کر رہا ہے