میرے اندر صرف میں تھا دوسرا کوئی نہ تھا
میرے اندر صرف میں تھا دوسرا کوئی نہ تھا
شور اتنا تیز تھا پر بولتا کوئی نہ تھا
آنکھ روئی ہیں بہت دنیا کی حالت دیکھ کر
یوں تو لوگوں سے ہمارا واسطہ کوئی نہ تھا
ایسی دنیا میں مجھے اک عمر تک رہنا پڑا
آنکھ تھی سب کی وہاں پر دیکھتا کوئی نہ تھا
پستکوں میں عمر گزری بال بھی چاندی ہوئے
میرے خاطر دل کا دروازہ کھلا کوئی نہ تھا
ایک عرصے بعد جب آنا ہوا گھر کی طرف
صرف تنہائی تھی ستیہؔ اور بچا کوئی نہ تھا