زمانے کی فصیلوں کو گرا کر
زمانے کی فصیلوں کو گرا کر
کبھی دیکھیں گے خود کو آزما کر
مرے دل پر بھی نازل ہو سکینت
مرے مرشد مرے حق میں دعا کر
تمہاری راہ کو روشن کیا ہے
چراغ جان کو میں نے جلا کر
کسی دن ہم تمہاری خاکداں کو
چلے جائیں گے اک ٹھوکر لگا کر
تمہارا راستہ ہموار کر دوں
میں اپنی ذات کا پتھر ہٹا کر
فلک کے پار مجھ کو دیکھنا ہے
ستاروں سے بھری چادر ہٹا کر
اکیلے بیٹھ کے روتے رہے ہم
تمہاری یاد میں دنیا بھلا کر
کھلی آنکھوں میں سپنے دیکھتی ہوں
خود اپنی نیند کا پنچھی اڑا کر