زخم کو پھول لہو کو جو حنا کہتے ہیں

زخم کو پھول لہو کو جو حنا کہتے ہیں
ان کو شاعر نہیں شاعر کا چچا کہتے ہیں


ہم تو پتلی سی چھڑی بھی نہیں کہتے اس کو
لوگ اولاد کو پیری کا عصا کہتے ہیں


صرف افسر اسے کہنا تو کوئی بات نہیں
ہم تو صاحب کو کلرکوں کا خدا کہتے ہیں


شادیاں اپنی کیا کرتے ہیں جو لے کے طلاق
ان کو سب لوگ گدا ابن گدا کہتے ہیں


اس کو پیتے ہی کیا کرتا ہوں میں سیر فلک
آسمانی اسے سب لوگ بجا کہتے ہیں


آخرش ہو ہی گیا شیخ سے اور ہم سے ملاپ
وہ بھتیجا ہمیں ہم ان کو چچا کہتے ہیں


سن کے آواز اذاں مس نے یہ پوچھا ہاشمؔ
اس قدر چیخ کے مسجد میں یہ کیا کہتے ہیں