یوں تو حاجی بھی تھا ملا بھی تھا وہ پیر بھی تھا

یوں تو حاجی بھی تھا ملا بھی تھا وہ پیر بھی تھا
مثل سائیس مگر تیرا عناں گیر بھی تھا


سینکڑوں طرح کی چیزیں تھیں ڈنر میں لیکن
یہ تو فرمائیں وہاں قیمۂ خنزیر بھی تھا


یوں تو مژگاں کے کٹاروں سے مسلح تھے سبھی
ماہ وش ان میں کوئی دست بہ شمشیر بھی تھا


میری ہی آنکھ کا تنکا نظر آیا سب کو
ورنہ کچھ لوگوں کی آنکھوں میں تو شہتیر بھی تھا


پڑھ کے کالج میں بھی مسجد کی امامت ہی ملی
اس میں کچھ شائبہ خوبیٔ تقدیر بھی تھا


نہ ہوا ہاشم عیار کے دل میں سوراخ
اے شکاری ترے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا