یاد

میری محبوب تجھے
یاد بھی ہیں وہ لمحے
وہ شب وصل
کہ جب خواب سنور آئے تھے
اسم اعظم کی طرح
ورد زباں تھا کوئی
جیسے عابد ہو مصلے پہ زباں کھولے ہوئے
خامشی ایسی کہ جگ بیت گئے بولے ہوئے
ایک نے ایک کو پیغام دیا ہو جیسے
ایک نے ایک سے پیغام لیا ہو جیسے


وجد کی نیند میں کچھ دیر تلک سوئے بھی تھے
رقص کی نقرئی جھنکار میں یوں کھوئے بھی تھے
ہم چراغوں کی طرح صبح تلک جلتے رہے
ہاتھ میں ہاتھ لیے دور تلک چلتے رہے
میری محبوب
تجھے یاد بھی ہیں وہ لمحے
وہ شب وصل کہ جب خواب سنور آئے تھے
اب نہ سرشاریٔ حافظؔ ہے نہ غالبؔ کی غزل
فکر سعدیؔ کی امنگیں ہیں نہ خیامؔ کا طور
رجنی گندھا کی کہانی کو سبھی بھول گئے
یاد شیریں کا زمانہ ہے نہ فرہاد کا دور
ٹمٹماتے ہوئے آکاش کے تاروں کی طرح
ٹوٹ کے میں بھی کسی روز بکھر جاؤں گا
میری محبوب تیری پاک محبت کی قسم
حسن یوسف کی قسم اپنی صداقت کی قسم
زندگی زخم ہے عیسیٰ کی نبوت کی قسم