زخم دل پر لگا نہیں ہوتا
زخم دل پر لگا نہیں ہوتا
حال ایسا ہوا نہیں ہوتا
ذکر جاناں ہوا نہیں ہوتا
زخم دل پھر ہرا نہیں ہوتا
چین سے زندگی بسر ہوتی
روگ دل کا لگا نہیں ہوتا
کچھ نہ کچھ بات ہو گئی ورنہ
دل ربا بے وفا نہیں ہوتا
انس اخلاص اور وفاداری
دل میں شاعر کے کیا نہیں ہوتا
دشت و صحرا میں گر نہیں پھرتے
پاؤں میں آبلہ نہیں ہوتا
تم سے شکوہ ہے بے وفائی کا
سب سے تو یہ گلہ نہیں ہوتا
ظلم بڑھتا ہے روز ظالم کا
ختم یہ سلسلہ نہیں ہوتا
چار آنکھیں نہیں ہوئی ہوتیں
پیار کا حادثہ نہیں ہوتا
یاد آتی نہ ہم کو جاناں کی
جام غم کا بھرا نہیں ہوتا
عدل کے بیچ کوئی حائل ہے
کیوں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا
کہکشاں چاند تتلیاں جگنو
ذکر جاناں میں کیا نہیں ہوتا
رب کو بے شک پکارتے ہیں ہم
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا
ہار جاتا ہوں میں انا سے ذکیؔ
سر یہ کیوں معرکہ نہیں ہوتا