وہ سنگ دل مرا رہبر ہے کیا کیا جائے

وہ سنگ دل مرا رہبر ہے کیا کیا جائے
اور اس کے ہاتھ میں خنجر ہے کیا کیا جائے


مرے بزرگوں کے سر پر ہما کا سایہ تھا
یہ آج غیروں کے سر پر ہے کیا کیا جائے


یہ ہولی اس نے جو کھیلی ہے آتش و خوں کی
سفیر امن بھی ششدر ہے کیا کیا جائے


اڑیں گی دھجیاں پھر امن کی کہ وہ ظالم
کھڑا ہوا سر منبر ہے کیا کیا جائے


یہ تخت و تاج یہ محلوں کا کل جو والی تھا
وطن میں اپنے ہی بے گھر ہے کیا کیا جائے


بتاؤ کیسے جلاؤں میں شمع الفت کی
کہ تیز بغض کی صرصر ہے کیا کیا جائے


ذکیؔ وہ اپنی صفائی میں خواہ کچھ بھی کہے
گمان میرا برابر ہے کیا کیا جائے


وہ جس نے خون سے سینچا تھا اس چمن کو ذکیؔ
خلاف اس کے ہی محضر ہے کیا کیا جائے