اس چاند سے چہرے کو دکھا کیوں نہیں دیتے
اس چاند سے چہرے کو دکھا کیوں نہیں دیتے
حسرت یہ مرے دل کی مٹا کیوں نہیں دیتے
خلوت میں تو کہتے ہو کہ تم جان ہو میری
یہ بات زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے
یہ بات اگر سچ ہے کہ تم پیر مغاں ہو
اس رند کو جی بھر کے پلا کیوں نہیں دیتے
مقصود نہیں نسل کی اصلاح اگر ہو
اسلاف کے اوصاف بتا کیوں نہیں دیتے
اخلاق سے کردار سے الفت سے جہاں میں
نفرت کے اندھیروں کو مٹا کیوں نہیں دیتے
میں ہو کے وفادار بھی ملزم ہوں جفا کا
پھر میری وفاؤں کو بھلا کیوں نہیں دیتے
نفرت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ذکیؔ تم
اک شمع محبت کی جلا کیوں نہیں دیتے