ضبط سے کام لے آہوں میں اثر ہونے تک

ضبط سے کام لے آہوں میں اثر ہونے تک
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک


وہ نشیمن بھی تو صیاد مرا چھوٹ گیا
ہم بچائے تھے جسے نذر شرر ہونے تک


تم نہ آئے تو شب ہجر ستارے چن کر
ہم نے پلکوں میں سجائے تھے سحر ہونے تک


سلسلہ گریۂ پیہم کا نہ چھوٹے یا رب
اس کے دامن کا مرے اشکوں سے تر ہونے تک


اپنا مسلک ہے یہی کار گہہ رزم حیات
کشمکش جاری رہے معرکہ سر ہونے تک


منتظر آپ رہیں ہم تو چلے اے ہمدمؔ
نخل گلزار تمنا میں ثمر ہونے تک