جرأت و عزم چاہئے دل میں

جرأت و عزم چاہئے دل میں
کوئی مشکل نہیں ہے مشکل میں


اس سفینے کا تذکرہ بے سود
ہو چکا ہے جو غرق ساحل میں


ہائے اس کارواں کی پامالی
لٹ گیا جو پہنچ کے منزل میں


یہ ہے شان کمال خودداری
بے نیازی ہے ان کی محفل میں


روغن خون آرزو سے مرے
جل رہا ہے چراغ محفل میں


پھونک سکتا ہے خرمن ہستی
وہ شرارا ہے تودۂ گل میں


روشنی وہ ہے اور یہ ظلمت
فرق اتنا ہے حق و باطل میں


منہ کی کھانی پڑے گی اے ہمدمؔ
جو بھی آیا ترے مقابل میں