ڈھونڈھتا پھرتا ہے کعبے میں صنم ہے کہ نہیں
ڈھونڈھتا پھرتا ہے کعبے میں صنم ہے کہ نہیں
اے دل ناداں تجھے پاس حرم ہے کہ نہیں
پھر وہی برق تبسم خرمن دل پر گری
آپ ہی کہیے کہ یہ ظلم و ستم ہے کہ نہیں
اے مسیحائے زمانہ یہ بتا دیتا مجھے
جو جگر میں درد ہے میرے وہ کم ہے کہ نہیں
جو خلش بے چین کر دیتی ہے مجھ کو بار بار
آپ کے سینے میں بھی وہ سوز غم ہے کہ نہیں
میرے ساقی میں نہیں آتا گھٹا لے آئی ہے
دیکھوں تو بھی مائل لطف و کرم ہے کہ نہیں
اب کے رہبر جو بنائیں تو پرکھ کر دیکھ لیں
اہل دل اہل نظر اہل قلم ہے کہ نہیں
پڑ کے ہاتھوں میں زمانے کے ذرا ہمدمؔ بتا
زندگی وقف الم مشق ستم ہے کہ نہیں