تماشائے الم ہے اور میں ہوں
تماشائے الم ہے اور میں ہوں
خوشی کے ساتھ غم ہے اور میں ہوں
زمانے کا ستم ہے اور میں ہوں
یہ سب ان کا کرم ہے اور میں ہوں
رہ حق پر قدم ہے اور میں ہوں
سر افلاک خم ہے اور میں ہوں
تموج پر ابھی ہے بحر ہستی
سفینہ زیر و بم ہے اور میں ہوں
ابھی کیسے کہوں صبح بہاراں
ابھی تو شام غم ہے اور میں ہوں
کہیں بزم نشاط عیش و عشرت
کہیں پر چشم نم ہے اور میں ہوں
بدل ڈالوں نظام زندگی یہ
بڑی مشکل میں دم ہے اور میں ہوں
کسی لمحہ بھڑک کر بجھ نہ جائے
چراغ صبح دم ہے اور میں ہوں
مجھے تنہا نہ سمجھو میرے ہمدمؔ
ہجوم رنج و غم ہے اور میں ہوں