یوں پا رہا ہوں اس کا تصور خیال میں
یوں پا رہا ہوں اس کا تصور خیال میں
اک شان ہے کہ محو ہے اپنے جمال میں
مجھ کو بھی کاش اس پہ کوئی اختیار ہو
حاصل ہے جس کو دخل مرے ہر خیال میں
مجھ کو تشفی ابدی کس نے بخش دی
ڈوبا ہوا تھا میں عرق انفعال میں
حرماںؔ کو موت آئے شب ہجر تو کہے
کیونکر گزارتا ہے امید وصال میں