سجدہ گاہ اہل دل بعد فنا ہو جائیے

سجدہ گاہ اہل دل بعد فنا ہو جائیے
صفحۂ ہستی پہ اک نقش وفا ہو جائیے


پائے خود رفتہ بھی حاصل ذوق بے حد بھی نصیب
رہنما کیوں ڈھونڈئیے خود رہنما ہو جائیے


شمع صورت ایک دن جلنا ہے اپنی آگ میں
لذت‌ سوز دروں سے آشنا ہو جائیے


بندش رنج و الم فکر اجل قید حیات
درس الفت لیجئے سب سے رہا ہو جائیے


جذبۂ الفت کی قیمت دونوں عالم بھی نہیں
دیجئے دل بے نیاز مدعا ہو جائیے


زندگی وہ ہے کریں وہ جس پہ تکمیل ستم
یوں بسر کیجے کہ ان کا مدعا ہو جائیے


کچھ نہ ہونے پر جہاں کو درد عبرت دیجئے
خلق میں اک پیکر عبرت نما ہو جائیے


مل ہی جائے گی کہیں حرماںؔ فضائے پر سکوں
اس جہان آب و گل سے تو جدا ہو جائیے