کچھ اس بلا کا ترا ربط آشنا ہونا
کچھ اس بلا کا ترا ربط آشنا ہونا
کہ ہر جفا کا بہ اندازۂ وفا ہونا
ستم شعار تری آرزو پہ کیا موقوف
کسی خلش کا گوارہ نہیں جدا ہونا
جہاں میں پھر نہ کہیں وجہ رشک ہو جائے
ترے کرم سے مرا مورد جفا ہونا
گداز عشق سے معمور کر دیا مجھ کو
محال ہے ترے احسان سے ادا ہونا
وہ شوق میں ترے اظہار ناز کا آغاز
وہ میرے حال پہ ہر جور کا روا ہونا
ہوا وہ داد وفا چاہنے پہ کیوں برہم
کوئی گناہ نہ تھا طالب جزا ہونا
شب فراق وہ ہلکی سی اک شعاع امید
وہ صبح تک مرے جینے کا آسرا ہونا
بساط دہر پہ آساں نہیں ہے کچھ حرماںؔ
تری نگاہ کے عالم سے آشنا ہونا