کہو کس طرح ہوں قائل سکون قلب مضطر کے

کہو کس طرح ہوں قائل سکون قلب مضطر کے
ذرا جنبش ہوئی پیدا ہوئے آثار محشر کے


پھری ہیں آ کہ سحر آفریں نظریں یہ کیا کر کے
ابھی تو جان سی آئی تھی امیدوں میں مرمر کے


فلک نے جس قدر پیدا کئے انداز محشر کے
کرشمے ہیں وہ سب تیری ادائے فتنہ پرور کے


تبسم میں بھی دل غم کی جھلک پہچان لیتا ہے
یہ درد و غم ازل سے رہنے والے ہیں اسی گھر کے


ہماری انتہائے ناتوانی حد‌ منزل ہے
سلامت لرزش پا کون لے احسان رہبر کے


کسے معلوم حسن جلوہ گر کی کار فرمائی
نظر کس سے ملاتے دیکھنے والے نظر بھر کے


مرے ضبط الم نے تاب گویائی نہ دی مجھ کو
سناتا اہل عالم کو فسانے زندگی بھر کے


زباں کٹتی ہے جس در پر صدا دیتے دعا دیتے
گدا کہلاتے ہیں حرماںؔ ہم اس بے درد کے در کے