یوں ہی کب تک مری تقدیر میں بل آئیں گے

یوں ہی کب تک مری تقدیر میں بل آئیں گے
آج کی بات پہ کہتے ہو کہ کل آئیں گے


پاؤں جب جذب محبت کے نکل آئیں گے
وادیٔ حسن و جوانی میں خلل آئیں گے


چل تو لے کر ہمیں اے مستیٔ ذوق سجدہ
منہ پہ خاک در محبوب ہی مل آئیں گے


حوصلہ شرط ہے حالات سے مایوس نہ ہو
راستے خود ہی چٹانوں سے نکل آئیں گے


کروٹیں لیتا ہے جب درد محبت دل میں
کوئی چپکے سے یہ کہتا ہے سنبھل آئیں گے


جب بہار آئے گی پھولوں پہ شباب آئے گا
تذکرے میری تباہی کے نکل آئیں گے


اب نہ آئے گا کوئی ثانیٔ شاداںؔ انورؔ
گو بہت اہل سخن اہل غزل آئیں گے