کبھی تو پیار سے لے گا وہ نام اپنا بھی
کبھی تو پیار سے لے گا وہ نام اپنا بھی
قبول ہوگا کسی دن سلام اپنا بھی
کبھی تو ہم بھی رگ گل سے کاٹ دیں پتھر
جہاں میں کچھ تو ہو مشہور نام اپنا بھی
کوئی تو جھانکے گا میری طرف دریچے سے
کسی نگاہ میں ہوگا مقام اپنا بھی
اس آرزو میں سر راہ بیٹھ جاتا ہوں
وہاں سے لائے گا قاصد پیام اپنا بھی
وہ جس کے دل میں جگہ ہے مسافروں کے لئے
یہ کیا ضرور کرے انتظام اپنا بھی
مچی ہیں شہر میں جس کے خلوص کی دھومیں
وہ شخص کچھ تو کرے انتظام اپنا بھی
مجھے یقین ہے ساقی کے لطف پر انورؔ
شراب حسن سے بھر دے گا جام اپنا بھی