یوں فسانہ کہنے کا سلسلہ بدل جائے
یوں فسانہ کہنے کا سلسلہ بدل جائے
اگلے موڑ پر شاید راستہ بدل جائے
آئنہ بدلنے سے چہرہ کب بدلتا ہے
ہاں یہ عین ممکن ہے زاویہ بدل جائے
لوگ میرے بارے میں کچھ الگ ہی کہتے ہیں
مجھ سے مل کے دیکھیں تو نظریہ بدل جائے
گرچہ لفظ و معنی کا رشتہ خود ہی مبہم ہے
وہ اگر بیاں کر دیں واقعہ بدل جائے
دشمنوں سے ملنے کا فیصلہ تو میرا تھا
آپ سے ملیں شاید فیصلہ بدل جائے
بات کہتے کہتے کیوں رک گئیں ادھر میں تم
سوچ کر کہو شاید سلسلہ بدل جائے
بارہا انیسؔ ان سے مل کے یوں تو دیکھ آئے
اب کی بار ممکن ہے نظریہ بدل جائے