جہان رنگ و بو میں تھی یہ ویرانی مگر کب تک

جہان رنگ و بو میں تھی یہ ویرانی مگر کب تک
ہمارے پیار کی خوشبو نہ پہنچی تھی یہاں جب تک


تمہاری مصلحت کوشی کو ہے میرا سلام اے دل
انہیں چاہا انہیں پوجا مگر دیکھا کہاں اب تک


ازل کی پیاس ہونٹوں پر لیے پھرتا رہا ناداں
اٹھایا جام کتنوں نے زبس پہنچا کسی لب تک


چلو اچھا ہوا تم نے تو سارے داغ دھو ڈالے
مرے دامن پہ یہ دھبا رہے گا ضو فشاں کب تک


خموشی نے مری کیا کہہ دیا تجھ سے کہ اے دوراں
تھمے آنسو نہ شبنم کے گریباں چاک گل کب تک


غلط ہے تجھ سے امید وفا اے فتنۂ دوراں
یوں ہی باقی ہیں ہنگامے رہے تو مہرباں جب تک


انیسؔ اس کیفیت میں یہ غزل لکھنا قیامت ہے
لگے گی آگ جب دل میں تو پہنچے گا دھواں لب تک