میرا ماضی مرے چہرے سے جھلکتا ہے ضرور
میرا ماضی مرے چہرے سے جھلکتا ہے ضرور
مجھ کو حالات کی گرمی کی شکایت نہ غرور
مصلحت جان کے کانٹوں کی قبا لائے تھے
گل کی رنگین قبائی کو پرکھنا تھا ضرور
کون سے بھیس میں مل جائیں فرشتے ہمدم
خدمت انس و بشر اپنا فریضہ ہے حضور
وقت کے ساتھ بدلنے لگا احساس کا رنگ
مجھ کو اس بات کا پہلے سے نہ تھا کوئی شعور
بارہا ان کو رگ جاں سے قریں پایا ہے
پھر جو دیکھا تو نظر آتے ہیں وہ آج بھی دور
آپ بے وجہ انیسؔ آج پریشان نہ ہوں
اب کہاں یاد انہیں وہ دل سادہ کا قصور