فریب ذات کے دل کش بتوں کو کس نے یوں توڑا
فریب ذات کے دل کش بتوں کو کس نے یوں توڑا
ہمیں تھے جس نے ہستی کے حقائق سے نہ منہ موڑا
در حسرت یہ کیا تکتا ہے اے دل نو بہ نو جلوے
کسی کی سرفرازی دیکھ کر کریے نہ دل تھوڑا
یہ غم کیا کم ہے اے ہمدم کہ بستی کے غزالوں کو
ابھی دشت تغافل کی تمنا نے نہیں چھوڑا
نئی دیوار اٹھا کر ہم یہ سمجھے دل بدل ڈالے
مگر بنیاد کے پتھر نے وہ رشتہ نہیں توڑا
مقدر سے شکایت کب تلک کریے انیسؔ آخر
تمہیں پاس تکلف نے کسی قابل نہیں چھوڑا