وہ یقیں پھر کسی چہرے پہ نظر آئے گا

وہ یقیں پھر کسی چہرے پہ نظر آئے گا
جو مرے خواب کی تعبیر سنا جائے گا


جھیل سی آنکھوں میں کھل جائیں امیدوں کے کنول
جن سے یہ مہر جہاں تاب بھی شرمائے گا


پھر لکھی جائے گی ان چاند سے چہروں کی کتاب
وقت صفحات پلٹتا ہوا رہ جائے گا


درد کی شب ہے گزر جائے گی پل دو پل میں
اک ستارہ سر مژگاں جو ٹھہر جائے گا


قہر ڈھاتے ہیں مری ذات پہ سرکش لمحے
گر مداوا نہ کیا حوصلہ پچھتائے گا


زیر خنجر بھی مجھے یاد رہے گا وہ شخص
جو مری لاش کو اپنا عدو ٹھہرائے گا


شاید اس بات کا الزام مجھی پر آئے
گر کبھی کوئی مورخ اسے دہرائے گا