چمن چمن میں ہیں برپا یہ کیسے ہنگامے

چمن چمن میں ہیں برپا یہ کیسے ہنگامے
کلی کے تتلی کے بھونروں کے گل کے ہنگامے


ہزار رنگ کے پھولوں سے باغ کی زینت
بہار آئی تو لائی ہے اتنے ہنگامے


مری خموشی کے معنی کچھ اور ہی سمجھے
اسی لئے تو اٹھائے ہیں اتنے ہنگامے


وہ راہ بھول چکے تھے میں بچ کے کیا کرتی
مری گلی میں مگر کس قدر تھے ہنگامے


ہوئی تجھے کبھی اے دل مآل کی پرواہ
ہر ایک سانس کی دھڑکن میں کتنے ہنگامے


ذرا پتہ تو لگا نفرتوں کے سوداگر
اٹھے ہیں کون گلی سے مچائے ہنگامے


ہماری بے خبری ہے سزا ہمارے لیے
اندھیری راہوں میں اگتے ہیں سارے ہنگامے


غم حیات سے بچنے کے سو بہانے ہیں
عزیز تر ہیں مجھے زندگی کے ہنگامے


ہزار بار مجھے ڈھونڈ کر پلٹ آئے
ہیں کتنے ظرف نظر شہر کے یہ ہنگامے


یہ دل کہ دست طلب کر سکا کبھی نہ دراز
نہ بھول پایا کبھی آرزو کے ہنگامے


انیسؔ تم نے بسائے ہیں دل کی دھڑکن میں
تخیلات کے آنچل سے لے کے ہنگامے