یوں درد کی شدت سے پکاری مری آنکھیں

یوں درد کی شدت سے پکاری مری آنکھیں
خوابوں کے بکھر جانے سے ہاری مری آنکھیں


پلکوں پہ غم ہجر کے سب دیپ جلائے
نیندوں کے شبستان میں بھاری مری آنکھیں


تنہائی میں اک خواب کی لو پھوٹ رہی ہے
بجھ سکتی نہیں رنج کی ماری مری آنکھیں


تم جب سے مرے آنکھ کے حجرے میں مکیں ہو
پر نور ہوئی اور بھی پیاری مری آنکھیں


یہ کس کی زیارت سے چھلکتا ہے اجالا
اس سرمۂ منظر نے نکھاری مری آنکھیں


سپنوں کے حسیں تخت پہ ہیں روز ازل سے
بیٹھی ہیں بنی راجکماری مری آنکھیں


یہ رسم شب غم سے ہی ایجاد ہوئی ہے
اشکوں کے ستاروں سے سنواری مری آنکھیں