میں تجھ سے اپنی رفاقتوں کا حساب لکھوں
میں تجھ سے اپنی رفاقتوں کا حساب لکھوں
تو آنکھوں آنکھوں حسین رنگوں کے خواب لکھوں
بچھڑ کے تجھ سے تجھی کو سوچوں تجھی کو چاہوں
کہ نام تیرے ہی اپنے دل کی کتاب لکھوں
نہ کچھ سمجھ میں جو آئے دل کی تو رو پڑوں میں
کہ ہجر میں یہ گزرتے لمحے عذاب لکھوں
یہ میری خانہ خرابیوں پہ سوال اٹھے
چلے بھی آؤ کہ دہر کو میں جواب لکھوں
حیات اپنی تو خشک پتی سے خشک تر ہے
کبھی تو یوں ہوگا زندگی کامیاب لکھوں
اداس چہرے پہ یوں چمکتی ہوں میری آنکھیں
کبھی تبسم کے نام رنگ گلاب لکھوں