کس زندگی کے موڑ پہ لایا گیا مجھے

کس زندگی کے موڑ پہ لایا گیا مجھے
میں ہنس رہی تھی اور رلایا گیا مجھے


پہلے تو تیرہ بخت مسلسل کہا گیا
پھر تخت ضو فشاں پہ بٹھایا گیا مجھے


پہلے تو انتخاب ہوا نام حسن پر
پھر اسم عشق لے کے بنایا گیا مجھے


مجھ سے مرے خیال کی تنہائی چھن گئی
محفل میں کس صدا سے بلایا گیا مجھے


اغیار سے وہ کرتا رہا مسکرا کے بات
اس آگ کی حدوں میں جلایا گیا مجھے


رہبر نے اس طرح سے دیا ہے مجھے فریب
منزل سے ہٹ کے رستہ دکھایا گیا مجھے


پہلے مری وفا کو معطر کیا گیا
پھر گلشن حیا سے سجایا گیا مجھے


اک شخص آ گیا ہے نئی روشنی کے ساتھ
یہ بھی خط نفس سے بتایا گیا مجھے


وہ کون آسمان تصور ہے ہادیہؔ
میری زمیں سے جس میں بسایا گیا مجھے