میرے تو روز و شب سے خسارہ نہیں گیا
میرے تو روز و شب سے خسارہ نہیں گیا
شاید کہ تم کو دل سے پکارا نہیں گیا
بے ربط ہو گئی ہے ترے بعد اس طرح
پھر زندگی کو ہم سے گزارا نہیں گیا
محفوظ میری آنکھیں میں رخصت کا وقت ہے
ان دونوں کھڑکیوں سے نظارہ نہیں گیا
چہرے پہ ہے عیاں وہی تحریر دل شکست
مجھ سے تو اور روپ بھی دھارا نہیں گیا
کشتی وفا کی ڈوبی تو بحر یقین میں
موجیں گئی ہیں ساتھ کنارہ نہیں گیا
ٹوٹا فلک سے جو بھی زمیں زاد بن گیا
واپس پلٹ کے پھر وہ ستارہ نہیں گیا
اے ہادیہؔ سنوار دی دنیا کی رہ گزار
لیکن نصیب اپنا سنوارا نہیں گیا