کسی بچپن میں بنائی ہوئی کشتی جیسا
کسی بچپن میں بنائی ہوئی کشتی جیسا
ساتھ تیرا تھا مگر دھوپ کی نرمی جیسا
میں مسافر تھی کہ منزل ہی نہیں تھی جس کی
تو مرے ساتھ کسی ریل کی پٹری جیسا
پھول شاخوں پہ کوئی کھل ہی نہیں پایا تھا
موسم وصل کسی ہجر کی سختی جیسا
سختیاں بولتی رہتی تھیں ترے لہجے میں
اور مرا دل یہ کسی کانچ کی چوڑی جیسا
ہم ترے وعدے کی زنجیر لیے بیٹھے رہے
جاگتی آنکھ میں اک خواب تھا لوری جیسا
درد ان آنکھوں سے دریا کی طرح نکلا ہے
ہادیہؔ ہم تو سمجھتے تھے سرابی جیسا