یوں بظاہر دیکھنے میں گو کہ بے چہرہ ہوں میں

یوں بظاہر دیکھنے میں گو کہ بے چہرہ ہوں میں
مجھ میں اپنے خال و خط دیکھو کہ آئینہ ہوں میں


جذبۂ صحرہ نوردی تھک کے کب رکتا ہوں میں
پاؤں سے کانٹا نکلنے دے ابھی چلتا ہوں میں


حال زہر آلود ماضی فوت مستقبل سیاہ
آج کے انسان کی تقدیر پڑھ سکتا ہوں میں


مے کشی تو کیا بجھا پائے گی میری تشنگی
دیجئے مجھ کو سمندر پیاس کا صحرا ہوں میں


وہ خیالوں میں برہنہ جسم کیا آئے نریشؔ
رات بھر اپنے بدن کی آنچ سے سلگا ہوں میں