اک وہی شخص جسے راحت جاں کہتا ہوں
اک وہی شخص جسے راحت جاں کہتا ہوں
ہاں اسی شخص کو میں جی کا زیاں کہتا ہوں
منصف شہر اس آواز سے ڈر جاتا ہے
میں جسے غوغۂ آواز سگاں کہتا ہوں
سر اسے کہتا ہوں جس میں ہو شہادت کا جنوں
حق گوئی پر جو کٹے اس کو زباں کہتا ہوں
وائے تقدیر وہ جس بات پہ کہتے ہیں نہیں
بے ارادہ میں اسی بات پہ ہاں کہتا ہوں
اے نریشؔ آپ جسے طرز بیاں کہتے ہیں
میں اسے آپ کا انداز فغاں کہتا ہوں