ترے فراق میں جب بھی بہار گزری ہے

ترے فراق میں جب بھی بہار گزری ہے
ہمیں رلا کے لہو بار بار گزری ہے


پناہ خدا کی حسینوں کی بد مزاجی سے
مری دعا بھی انہیں ناگوار گزری ہے


تمام رات ستاروں کے ساتھ رویا ہوں
نہ پوچھ کیسے شب انتظار گزری ہے


ترا نصیب اگر تو نے پی نہیں زاہد
بہار ورنہ بڑی پر بہار گزری ہے


ہم اپنے درد کو روئیں تو کس لیے آخر
شب فراق کسے سازگار گزری ہے


کسی کی یاد میں ہم کو نریشؔ تڑپا کر
اٹھا کے حشر نسیم بہار گزری ہے