خود سے بچھڑ کے ذات کے پیکر میں قید ہوں
خود سے بچھڑ کے ذات کے پیکر میں قید ہوں
گھر سے نکل گیا تھا مگر گھر میں قید ہوں
ہوں نعرۂ جہاد بھی عزم جوان بھی
دل میں کبھی مقیم تھا اب سر میں قید ہوں
مشتاق و منتظر ہوں کہ چنگاریاں ملیں
کیا خوب آگ ہو کے بھی پتھر میں قید ہوں
دیکھو تو کائنات دکھائی دے زیر پا
سوچوں تو جیسے خود ہی سمندر میں قید ہوں
وہ تو بلا رہے ہیں مگر اے نریشؔ میں
اپنی انا کے گنبد بے در میں قید ہوں