اپنے من میں جھانک کر بھی خود سے بیگانہ رہا

اپنے من میں جھانک کر بھی خود سے بیگانہ رہا
تو حقیقت آشنا ہو کر بھی دیوانہ رہا


رخ اگرچہ جانب کعبہ رہا ہے شیخ کا
دل مگر یاد بتاں سے اک پری خانہ رہا


سنگ اسود کو دیا بوسہ تو دل کہنے لگا
کعبہ و قبلہ سے کتنی دور بت خانہ رہا


ایک دن پی کر ذرا سچ کہہ دیا تھا عمر بھر
شکل سے بیزار میری پیر مے خانہ رہا


عشق نے بخشی ہے وہ شہرت نریشؔ اک عمر تک
بچے بچے کی زباں پر میرا افسانہ رہا