یہ زیست کرنے کی نکلی سبیل راتوں رات
یہ زیست کرنے کی نکلی سبیل راتوں رات
میں خود سے ہونے لگا ہوں طویل راتوں رات
وہ میری روح کو پھر بھی نہ کر سکا آزاد
جو ڈھا کے نکلا بدن کی فصیل راتوں رات
دیا ہے جاگتے تاروں نے بے مہار سا کرب
بنا گئے ہیں مجھے خود کفیل راتوں رات
میں بار بار یہاں زد پہ چڑھتا رہتا ہوں
چڑھائی کرتے ہیں اصحاب فیل راتوں رات
سروں کو طشت میں لے کر سحر ہے آنے کی
یہاں سے بھاگ اے ابن السبیل راتوں رات
میں اپنے آپ کو جل باس کرنے والا تھا
مرے مکاں میں اگا رود نیل راتوں رات
طیور ناچتے تھے جن کی شاخ شاخ پہ کل
برہنہ ہو گئے وہ سب نخیل راتوں رات