یہ زمیں یہ آسماں یہ کہکشاں کچھ بھی نہیں
یہ زمیں یہ آسماں یہ کہکشاں کچھ بھی نہیں
سب فنا کی قید میں ہیں جاوداں کچھ بھی نہیں
ہے مرے ہی دور افتادہ کسی گوشے میں ہیں
وسعت کونین ہوں میں یہ جہاں کچھ بھی نہیں
میں بڑی مشکل سے سمجھا ہوں قضا کے راز کو
برق رقصاں کے مقابل آشیاں کچھ بھی نہیں
زندگی تخریب اور تعمیر کا ہی کھیل ہے
علم والوں کو جہاں کی گتھیاں کچھ بھی نہیں
اے پرندو ان پروں میں ظرف تو پیدا کرو
حسرت پرواز کو یہ بیڑیاں کچھ بھی نہیں
زہر بھی گر حکمۃً لیں تو دوا بن جائے گا
اس جہاں میں دیکھیے تو رائیگاں کچھ بھی نہیں
یار کی گلیوں میں گھنگھرو باندھ کر بھی ناچ لوں
عشق میں کافرؔ مری خودداریاں کچھ بھی نہیں