میں اگر دل جلا نہیں ہوتا

میں اگر دل جلا نہیں ہوتا
شعر کوئی کہا نہیں ہوتا


عظمت عشق ہے کہ جھکتا ہوں
کوئی پیکر خدا نہیں ہوتا


بانس کے شہر میں بسے لوگو
ہر شجر کھوکھلا نہیں ہوتا


بس وحی رات دن کی گردش ہے
اور کچھ بھی نیا نہیں ہوتا


راس آنے لگی ہے فرقت بھی
ان دنوں غم زدہ نہیں ہوتا


اپنی وحشت سے خوف کھاتا ہوں
ضبط ہر مرتبہ نہیں ہوتا


ایک ساگر چھپا ہے آنکھو میں
صرف آنسو چھپا نہیں ہوتا


مسئلہ زندگی کا ہے کافرؔ
موت میں کچھ برا نہیں ہوتا