بڑے یقین سے کوئی اس انتظار میں ہے

بڑے یقین سے کوئی اس انتظار میں ہے
ترا وصال کا وعدہ اسی بہار میں ہے


کچھ اور وقت لگے گا ذرا تو صبر کرو
جو تشنگی کا مسیحا ہے ریگزار میں ہے


میں اپنے دل کو بچاؤں تو کس طرح جاناں
کہاں بچے گا جو تیری نظر کی مار میں ہے


ہر ایک شے ہے میری جستجو کے پہلو میں
میری حیات مرے ہی تو اختیار میں ہے


مرا سوال ہے اب معجزوں کے ہونے پر
یہ خاک اب بھی شراروں کے انتظار میں ہے


بس ایک لفظ نے طاری کیا تھا وجد کوئی
یہ کائنات ابھی بھی اسی خمار میں ہے


کوئی تو پوچھ کے آئے مقام کافرؔ کا
سخنوروں کے قبیلے میں کس شمار میں ہے