اک بت ہے جسے میری نظر ڈھونڈھ رہی ہے
اک بت ہے جسے میری نظر ڈھونڈھ رہی ہے
مشکل ہے ملاقات مگر ڈھونڈھ رہی ہے
لاکھوں میں کسی ایک کے کاندھوں پہ ملے گا
وہ سر کہ جسے عظمت سر ڈھونڈھ رہی ہے
منزل نے میرے پاؤں کو چوما ہے کئی بار
میں وہ ہوں جسے گرد سفر ڈھونڈھ رہی ہے
اک بار کرو جنگ میں اس ماں کا تصور
جو فوت ہوا لخت جگر ڈھونڈھ رہی ہے
پرواز کو باقی ہیں ابھی اور بھی امبر
حسرت میری اب ظرف کے پر ڈھونڈھ رہی ہے
اک روز اداسی نے مرا نام سنا تھا
اس دن سے مجھے شام و سحر ڈھونڈھ رہی ہے
خواہش ہے بڑی دیر سے کافرؔ کی جبیں کو
سجدے کے لیے یار کا در ڈھونڈ رہی ہے